قرضِ حسن اور انفاق فی سبیل اللہ کا بہترین بدلہ

از:  محمد نجیب قاسمی، ریاض

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

          اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن، وَالصَّلاةُ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِیْم ِ وَعَلٰی آلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِیْن.

          اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل سلیم عطا فرماکر اور اسے اشرف المخلوقات قراردے کر دنیا میں بھیجا۔ عقل کی ہدایت اور نگہبانی کے لیے اس کو شریعت کی روشنی سے نوازا تاکہ انسان اللہ تعالیٰ کی عبادت واطاعت کرے اور ایک نیک و صالح اور منصفانہ معاشرہ کی تعمیر کا کام انجام دے۔ اسی مقصد کی تکمیل کے لیے اللہ تعالیٰ نے روزِ اول سے انبیاء ورسل دنیا میں بھیجے اور یہ سلسلہ خاتم الانبیاء حضور اکرم اپر ختم ہوا، جن کو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک آنے والے تمام انس وجن کے لیے رسول بناکر بھیجا۔

          اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت واطاعت کا مکلف بناکر، اس روئے زمین پر اپنا خلیفہ مقرر کیا؛ تاکہ انسان اللہ تعالیٰ کی شریعت پر عمل کرے اور ایک منصفانہ سماج کی تشکیل کے لیے کوشاں رہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے یقینا جسمانی ومالی دونوں طرح کی قربانی درکار ہوتی ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّی تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّوْنَ (آل عمران: ۹۲) جب تک تم اپنی پسندیدہ چیز اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کرو گے ہرگز بھلائی نہیں پاوٴگے۔ اسی مالی تعاون کے ضمن میں آج قرضِ حسن ہمارا موضوع ہے ۔ قرض کے معنی کی تفصیل بعد میں آرہی ہے، جبکہ حسن کے معنی بہتر، خوبصورت اور اچھے کے ہیں۔

          اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی چھ آیات میں بارہ مقامات پر قرض کا ذکر فرمایا ہے اور ہر آیت میں قرض کو حسن کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿کِتَابٌ اُحْکِمَتْ آیَاتُہُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَکِیْمٍ خَبِیْرٍ (سورہٴ ہود ۱) یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ اس کی آیتیں محکم کی گئی ہیں، پھر صاف صاف بیان کی گئی ہیں، ایک حکیم با خبر کی طرف سے سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے کلام کا ہر ہر لفظ اپنے اندر متعدد مفاہیم رکھتا ہے ، ان مفاہیم کو قرنِ اول سے مفسرین قلم بند کررہے ہیں اور یہ سلسلہ کل قیامت تک جاری رہے گا، ان شاء اللہ۔

          پہلی قرض کے معنی سمجھیں: قرض کے لغوی معنی کاٹنے کے ہیں، یعنی اپنے مال میں سے کچھ مال کاٹ کر اللہ تعالیٰ کے راستے میں دیا جائے تو اللہ تعالیٰ اس کا کئی گنا بدلہ عطا فرمائے گا۔ محتاج لوگوں کی مدد کرنے سے مال میں کمی واقع نہیں ہوتی ہے؛ بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے جو مال غریبوں، مسکینوں اور ضرورت مندوں کو دیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ اس میں کئی کئی گنا اضافہ فرماتا ہے، کبھی ظاہری طور پر ، کبھی معنوی وروحانی طور پر اس میں برکت ڈال دیتا ہے، اور آخرت میں تو یقینا اس میں حیران کن اضافہ ہوگا۔

قرضِ حسن سے متعلق آیات قرآنیہ :

          (۱) مَنْ ذَا الَّذِی یُقْرِضُ اللہَ قَرْضاً حَسَناً فَیُضَاعِفَہُ لَہُ اَضْعَافاً کَثِیْرَةً وَاللہُ یَقْبِضُ وَیَبْسُطُ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ (البقرة۲۴۵)

کون شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کو قرضِ حسن دے؛ تاکہ اللہ تعالیٰ اُسے کئی گنا بڑھاکر واپس کرے، مال کا گھٹانا اور بڑھانا سب اللہ ہی کے اختیار میں ہے ،اور اسی کی طرف تمہیں پلٹ کرجانا ہے۔

          (۲) وَاَقْرَضْتُمُ اللہَ قَرْضاً حَسَناً لَاُکَفِّرَنَّ عَنْکُمْ سَیِّئَاتِکُمْ وَلَاُدْخِلَنَّکُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھَارُ (المائدة ۱۲)

اور تم اللہ تعالیٰ کو قرضِ حسن دیتے رہے، تو یقین رکھو کہ میں تمہاری برائیاں تم سے دور کردوں گا اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کروں گا، جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔

          (۳) مَنْ ذَا الَّذِی یُقْرِضُ اللہَ قَرْضاً حَسَناً فَیُضَاعِفَہُ لَہُ وَلَہُ اَجْرٌ کَرِیْمٌ (الحدید ۱۱)

کون شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کو قرضِ حسن دے؛ تاکہ اللہ تعالیٰ اسے بڑھاکر واپس کرے۔ اور اس کے لیے بہترین اجر ہے۔

          (۴) اِنَّ الْمُصَّدِّقِیْنَ وَالْمُصَّدِّقَاتِ وَاَقْرَضُوا اللہَ قَرْضاً حَسَناً یُضَاعَفُ لَھُمْ وَلَھُمْ اَجْرٌ کَرِیْمٌ (الحدید ۱۸)

مردوں اور عورتوں میں سے جو لوگ صدقات دینے والے ہیں، اور جنہوں نے اللہ تعالیٰ کو قرضِ حسن دیاہے،ان کو یقیناکئی گنابڑھاکر دیا جائے گا، اور ان کے لیے بہترین اجر ہے۔

          (۵) اِنْ تُقْرِضُوا اللہَ قَرْضاً حَسَناً یُّضَاعِفْہُ لَکُمْ وَیَغْفِرْ لَکُمْ وَاللہُ شَکُوْرٌ حَلِیْمٌ (التغابن ۱۷)

اگر تم اللہ تعالیٰ کو قرضِ حسن دو تو وہ تمہیں کئی گنابڑھاکر دے گا، اور تمہارے گناہوں کو معاف فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ بڑا قدردان اور بردبار ہے۔

          (۶) وَاَقْرِضُوا اللہَ قَرْضاً حَسَناً وَمَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِکُمْ مِنْ خَیْرٍ تَجِدُوْہُ عِنْدَ اللہِ ھُوَ خَیْراً وَّاَعْظَمُ اَجْراً (المزمل ۲۰)

اور اللہ تعالیٰ کو قرضِ حسن دو، جو کچھ نیک اعمال تم اپنے لیے آگے بھیجو گے، اسے اللہ کے ہاں موجود پاوٴگے، وہی زیادہ بہتر ہے، اور اس کا اجر بہت بڑا ہے۔

قرضِ حسن سے کیا مراد ہے ؟

          قرآنِ کریم میں استعمال ہوئی اس اصطلاح (قرضِ حسن) سے اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا ، غریبوں اور محتاجوں کی مدد کرنا، یتیموں اور بیواوٴں کی کفالت کرنا، مقروضین کے قرضوں کی ادائیگی کرنا ، نیز اپنے بچوں پر خرچ کرنا مراد ہے؛ غرضیکہ انسانیت کے کام آنے والی تمام شکلیں اس میں داخل ہیں، جیسا کہ مفسرین نے اپنی تفسیروں میں تحریر فرمایا ہے۔ اسی طرح قرضِ حسن میں یہ شکل بھی داخل ہے کہ کسی پریشان حال شخص کو اس نیت کے ساتھ قرض دیا جائے کہ اگر وہ اپنی پریشانیوں کی وجہ سے واپس نہ کرسکا تو اس سے مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔

 

اللہ نے بندوں کی ضرورت میں خرچ کرنے کو قرضِ حسن سے کیوں تعبیر کیا ؟

          اللہ تعالیٰ نے محتاج بندوں کی ضرورتوں میں خرچ کرنے کو اللہ تعالیٰ کو قرض دینا قرار دیا، حالانکہ اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے ، وہ نہ صرف مال ودولت اور ساری ضرورتوں کا پیدا کرنے والا ہے ، بلکہ وہ تو پوری کائنات کا خالق، مالک اور رازق ہے،ہم سب اسی کے خزانے سے کھا پی رہے رہیں، تاکہ ہم بڑھ چڑھ کر انسانوں کے کام آئیں ، یتیم بچوں اور بیوہ عورتوں کی کفالت کریں، غریب محتاجوں کے لیے روٹی کپڑا اور مکان کے انتظام کے ساتھ ان کی دینی وعصری تعلیمی ضرورتوں کو پورا کرنے میں ایک دوسرے سے مسابقت کریں، تاکہ اللہ تعالیٰ ہمارے گناہوں کو معاف فرمائے ، دونوں جہاں میں اس کا بہترین بدلہ عطا فرمائے اور اپنے مہمان خانہ جنت الفردوس میں مقام عطا فرمائے۔ آمین۔

حضرت ابو الدحداح کا واقعہ:

          حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ جب قرضِ حسن سے متعلق آیت قرآن کریم میں نازل ہوئی تو حضرت ابو الدحداح انصاری حضور اکرم ا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! کیا اللہ تعالیٰ ہم سے قرض طلب فرماتا ہے۔ آپ ا نے فرمایا: ہاں۔ وہ عرض کرنے لگے: اپنا دست مبارک مجھے پکڑا دیجیے (تاکہ میں آپ اکے دست مبارک پر ایک عہد کروں)۔ حضور اکرم ا نے اپنا ہاتھ بڑھایا۔ حضرت ابو الدحداح انصاری نے معاہدہ کے طور پر حضور اکرم ا کا ہاتھ پکڑ کر عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے اپنا باغ اپنے اللہ کو قرض دے دیا۔ ان کے باغ میں کھجور کے ۶۰۰ درخت تھے، اور اسی باغ میں ان کے بیوی بچے رہتے تھے۔ یہاں سے اٹھ کر اپنے باغ گئے اور اپنی بیوی ام الدحداح سے آواز دے کر کہاکہ چلو اس باغ سے نکل چلو، یہ باغ میں نے اپنے رب کو دیدیا۔ (تفسیر ابن کثیر)

          یہ ہے وہ قیمتی سودا جو حضرت ابوالدحداح نے کیا، ان کے پاس دو باغ تھے، ان میں سے ایک باغ بہت قیمتی تھاجس میں کھجور کے ۶۰۰ درخت تھے، جس کو وہ خود بھی بہت پسند کرتے تھے اور اسی میں وہ اور ان کے بچے رہتے تھے، لیکن مذکورہ آیت کے نزول کے بعد یہ قیمتی باغ ضرورت مند لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ کو قرض دے دیا۔ ایسے ہی لوگوں کی تعریف میں اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں ارشاد فرمایاہے: ﴿یُوٴثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِھِمْ وَلَوْ کَانَ بِھِمْ خَصَاصَةٌ﴾ اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں، چاہے خود ان کو کتنی ہی سخت حاجت ہو (الحشر ۹)۔

قرآن میں قرضِ حسن کے مختلف بدلے :

          ۱) فَیُضَاعِفَہُ لَہُ اَضْعَافاً کَثِیْرَةً / فَیُضَاعِفَہُ لَہُ / یُضَاعَفُ لَھُمْ / یُضَاعِفْہُ لَکُمْ

                                                                   دنیا میں بہترین بدلہ۔

          ۲) وَلَہُ اَجْرٌ کَرِیْمٌ / وَلَھُمْ اَجْرٌ کَرِیْمٌ                 دنیا وآخرت میں بہترین بدلہ۔

          ۳) تَجِدُوْہُ عِنْدَ اللہِ ھُوَ خَیْراً وَّاَعْظَمَ اَجْراً           آخرت میں عظیم بدلہ۔

          ۴) لَاُکَفِّرَنَّ عَنْکُمْ سَيِّئَاتِکُمْ / وَیَغْفِرْ لَکُم             گناہوں کی معافی۔

          ۵) وَلَاُدْخِلَنَّکُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھَارُ     جنت میں داخلہ۔

اللّٰہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے والوں کی مثالیں:

          مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ قرضِ حسن سے مراد اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے بندوں کی مدد کرنا یعنی اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے کے چند فضائل تحریر ہیں:

          مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِی سَبِیْلِ اللہِ کَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِی کُلِّ سُنْبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ وَاللہُ یُضَاعِفُ لِمَن یَّشَاءُ وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ (سورہٴ البقرہ ۲۶۱)

جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہے بڑھاکردے اور اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے۔

          وَمَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللہِ وَتَثْبِیْتاً مِّنْ اَنْفُسِھِمْ کَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبْوَةٍ اَصَابَھَا وَابِلٌ فَآتَتْ اُکُلَھَا ضِعْفَیْنِ فَاِنْ لَمْ یُصِبْھَا وَابِلٌ فَطَلٌّ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ (البقرہ ۲۶۵)

ان لوگوں کی مثال جو اپنا مال اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی طلب میں دل کی خوشی اور یقین کے ساتھ خرچ کرتے ہیں، اس باغ جیسی ہے جو اونچی زمین پر ہو، اور زوردار بارش اس پر برسے اور وہ اپنا پھل دگنا لاوے اور اگر اس پر بارش نہ بھی برسے تو پھوار ہی کافی ہے اور اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔

          جس قدر خلوص کے ساتھ ہم اللہ تعالیٰ کے راستے میں مال خرچ کریں گے، اتنا ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا اجر وثواب زیادہ ہوگا۔ ایک روپیہ بھی اگر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے کسی محتاج کو دیا جائے گا، تو اللہ تعالیٰ ۷۰۰ گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ ثواب دے گا۔ مذکورہ بالا آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ کی دو صفات ذکر کی گئی ہیں: وسیع اور علیم۔ یعنی اس کا ہاتھ تنگ نہیں ہے کہ جتنے اجر کا عمل مستحق ہے وہ ہی دے، بلکہ وہ اس سے بھی زیادہ دے گا۔ دوسرے یہ کہ وہ علیم ہے کہ جو کچھ خرچ کیا جاتا ہے اور جس جذبہ سے کیا جاتا ہے، اس سے بے خبر نہیں ہے بلکہ اس کا اجر ضرور دے گا۔

قرضِ حسن اور انفاق فی سبیل اللّٰہ کس کو دیں؟

          جن حضرات کو قرض حسن اور صدقات دئے جاسکتے ہیں، ان میں سے بعض یہ ہیں :

غریب رشتہ دار، یتیم، بیوہ، فقیر، مسکین، سائل، قرضدار یعنی وہ شخص جس کے ذمہ لوگوں کا قرض ہو، اور وہ مسافر جو حالت سفر میں تنگدست ہوگیا ہو، جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

          آتَی الْمَالَ عَلَی حُبِّہِ ذَوِیْ الْقُرْبٰی وَالْیَتَامٰی وَالْمَسَاکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلَ وَالسَّائِلِیْنَ (البقرہ ۱۷۷)

جو مال سے محبت کرنے کے باوجود رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والے کو دے۔

          وَفِیْ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُوْمِ (الذاریات ۱۹)

ان کے مال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے کا حق ہے۔

قرض حسن اور انفاق فی سبیل اللّٰہ میں پسندیدہ چیزیں خرچ کریں:

          لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّی تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّوْنَ (آل عمران ۹۲)

جب تک تم اپنی پسندیدہ چیز اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کرو گے ہرگز بھلائی نہیں پاوٴگے۔

           یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اَنْفِقُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا کَسَبْتُمْ (البقرة ۲۶۷)

اے ایمان والو! اپنی پاکیزہ کمائی میں سے خرچ کرو۔

          جب ﴿لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّی تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّوْنَ﴾ آیت نازل ہوئی تو حضرت ابوطلحہ حضور اکرم ا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ نے محبوب چیز کے خرچ کرنے کا ذکر فرمایا ہے، اور مجھے ساری چیزوں میں اپنا باغ (بَیرحَاء )سب سے زیادہ محبوب ہے، میں اس کو اللہ کے لیے صدقہ کرتا ہوں اور اس کے اجروثواب کی اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں۔ حضور اکرم انے فرمایا : اے طلحہ ! تم نے بہت ہی نفع کا سودا کیا۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ حضرت ابو طلحہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرا باغ جو اتنی بڑی مالیت کا ہے وہ صدقہ ہے اور اگر میں اس کی طاقت رکھتا کہ کسی کو اس کی خبر نہ ہو تو ایسا ہی کرتا، مگر یہ ایسی چیز نہیں ہے جو مخفی رہ سکے۔ ( تفسیر ابن کثیر)

          اس آیت کے نازل ہونے کے بعد حضرت عمر فاروق بھی رسول اللہ ا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ مجھے اپنے تمام مال میں سب سے زیادہ پسندیدہ مال خیبر کی زمین کا حصہ ہے، میں اُسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں دینا چاہتا ہوں۔ آپ انے فرمایا : اسے وقف کردو! اصل روک لو، اور پھل وغیرہ اللہ کی راہ میں دے دو۔ (بخاری ، مسلم)

          حضرت محمد بن منکدر فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت زید بن حارثہ کے پاس ایک گھوڑا تھا جو ان کو اپنی ساری چیزوں میں سب سے زیادہ محبوب تھا۔ (اُس زمانہ میں گھوڑے کی حیثیت تقریباً وہی تھی جو اِس زمانہ میں گاڑی کی ہے) وہ اس کو لے کر حضور اکرم ا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یہ صدقہ ہے، حضور اکرم ا نے قبول فرمالیا اور لے کر ان کے صاحبزادہ حضرت اسامہ کو دیدیا۔ حضرت زید کے چہرہ پر کچھ گرانی کے آثار ظاہر ہوئے (کہ گھر میں ہی رہا ، باپ کے بجائے بیٹے کا ہوگیا) حضور اکرم ا نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارا صدقہ قبول کرلیا، اب میں چاہے اس کو تمہارے بیٹے کو دوں یا کسی اور رشتہ دار کو یا اجنبی کو۔

          # غرضیکہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعدصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت نے اپنی اپنی محبوب چیزیں اللہ تعالیٰ کے راستے میں دیں، جن کو نبی اکرم ا نے ضرورت مند لوگوں کے درمیان تقسیم کیں۔

          ﴿وضاحت: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تربیت خود حضور اکرم ا نے فرمائی تھی، اور ان کا ایمان اور توکل کامل تھا ، لہٰذا ان کے لیے اپنی پسندیدہ چیزوں کا اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا بہت آسان تھا، جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے واقعات تاریخی کتابوں میں محفوظ ہیں۔ جنگ خیبر کے موقع پر حضرت ابوبکر صدیق کا اپنا سارا سامان اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا، حضرت عثمان غنی کا ہر ضرورت کے وقت اپنے مال کے وافر حصہ کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے خرچ کرنا، وغیرہ وغیرہ ۔

          آج ہم ایمان وعمل کے اعتبار سے کمزور ہیں اور اگر ہم ﴿لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّی تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّوْنَ﴾کا مصداق بظاہر نہیں بن سکتے ہیں تو کم از کم ﴿یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اَنْفِقُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا کَسَبْتُمْپر عمل کرکے اپنی روزی صرف حلال طریقہ سے حاصل کرنے پر اکتفاء کریں اور اسی حلال رزق میں سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے ضرورت مند لوگوں پر خرچ کریں۔

اللّٰہ کے راستے میں اعلانیہ بھی قرضِ حسن اور صدقات دئے جا سکتے ہیں:

          قرض حسن اور صدقات میں اصل پوشیدگی مطلوب ہے یعنی چپکے سے کسی محتاج کی مدد کرنا، جیساکہ حضور اکرم ا نے ارشاد فرمایا :

تین شخصوں سے اللہ تعالیٰ بہت محبت کرتا ہے․․․․ ان میں سے ایک شخص وہ بھی ہے جو کسی شخص کی اس طرح مدد کرے کہ اللہ تعالیٰ اور سائل کے علاوہ کسی کو خبر تک نہ ہو۔ (ترمذی ، نسائی)

نیز رسول اللہ ﷺ  نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن سات لوگ اللہ کے عرش کے سائے میں ہوں گے، ان میں سے ایک وہ شخص ہے جو اس طرح صدقہ کرے کہ اس کے بائیں ہاتھ کو معلوم نہ ہو کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا۔ (بخاری، مسلم)

          اس کے باوجود کہ انفاق فی سبیل اللہ میں شریعت اسلامیہ نے چھپ کر دینے کی خصوصی تعلیمات دی ہیں، لیکن بعض مواقع پر اعلانیہ خرچ کرنے میں بھی مصلحت ہوتی ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے، جن میں سے بعض آیات یہ ہیں:

          الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ بِاللَّیْلِ وَالنَّھَارِ سِرًّا وَّعَلانِیَةً۔۔۔۔۔۔۔ (البقرة۴ ۲۷)

جو لوگ اپنے مالوں کو رات دن چھپ کر اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں، ان کے لیے ان کے رب کے پاس اجر ہے۔ اور نہ انہیں خوف ہے اور نہ غمگینی۔

          وَاَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاھُمْ سِرًّا وَّعَلانِیَةً ․․․․․ اُوْلَئِکَ لَھُمْ عُقْبَی الدَّارِ(الرعد ۲۲)

جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے اسے چھپ کر اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں․․․․ ان ہی کے لیے عاقبت کا گھر ہے۔

          وَاَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاھُمْ سِرًّا وَّعَلانِیَةً یَرْجُوْنَ تِجَارَةً لَّنْ تَبُورَ (الفاطر ۲۹)

جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے چھپ کر اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں،وہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں؛ جو کبھی خسارہ میں نہیں ہوگی۔

          ان مذکورہ آیات سے معلوم ہوا کہ ہم اعلانیہ بھی اللہ تعالیٰ کے بندوں کی مدد کرسکتے ہیں، جبکہ دیگر آیات واحادیث میں چھپ کر اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کی ترغیب ملتی ہے․․․․․․․ علماء کرام نے ان آیات واحادیث کے ظاہری اختلاف کے درمیان کچھ اس طرح تطبیق دی ہے کہ زکوٰة کی ادائیگی اعلانیہ ہونی چاہیے، تاکہ اس سے دوسروں کو بھی رغبت ملے ، اور زکوٰة کی ادائیگی سے متعلق دوسروں کے شک وشبہات بھی دور ہوجائیں۔ لیکن صدقات اور قرض حسن کی عموماً ادائیگی چھپ کر ہی ہونی چاہیے۔

          مگر اس حکمت بالغہ کے باوجود نبی اکرم ا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں بے شمار مرتبہ زکوٰة کے علاوہ دیگر صدقات بھی اعلانیہ جمع کیے گئے ہیں۔ نیز اعلانیہ خرچ کرنے سے بچنے کی اصل حکمت یہ ہے کہ ریا اور شہرت مطلوب نہ ہوجائے، کیونکہ ریا،شہرت اور دکھاوا اعمال کی بربادی کے اسباب میں سے ہیں۔ لہٰذا خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے واسطے غریب، محتاج، یتیم اور بیواوٴں کی مدد کے لیے اگر کسی پروگرام میں اعلانیہ قرض حسن دیا جائے، تو ان شاء اللہ یہ دکھاوے میں نہیں آئے گا؛کیونکہ یہ ضروری نہیں ہے کہ جو کام بھی کھلم کھلا کیا جائے وہ ریا ہی ہو، بلکہ دوسروں کو ترغیب دینے کے لیے بھی وقتاً فوقتاً اس طرح کے پروگرام منعقد ہونے چاہییں ،جیساکہ نبی اکرم ا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں جنگوں کے موقعوں پر اعلانیہ صدقات جمع کیے جاتے تھے۔ اگر صدقات اور قرض حسن میں اللہ جل شانہ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنا اصل مطلوب ومقصود ہو توکسی مصلحت سے اس کا اعلان بھی کیا جائے تو وہ ان شاء اللہ ریا میں داخل نہیں ہوگا ۔

قرض حسن یا انفاق فی سبیل اللّٰہ کو ضائع کرنے والے اسباب:

          ۱)       اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول مطلوب نہ ہو۔

          ۲)        ریا یعنی شہرت مطلوب ہو۔

          ۳)       احسان جتانا مقصود ہو۔

          ۴)        قرض حسن یا صدقہ دے کر لینے والے کو طعنہ وغیرہ دے کر تکلیف پہونچائی جائے۔

          لہٰذا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے کسی کی مدد کی جائے جیساکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:

          یَا اَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا لَاتُبْطِلُوا صَدَقَاتِکُمْ بِالْمَنِّ والْاَذَی کَالَّذِیْ یُنْفِقُ مَالَہُ رِئَاءَ النَّاسِ (البقرة۴ ۲۶)

اے ایمان والو! اپنی خیرات کو احسان جتاکر اور ایذا پہنچاکر برباد نہ کرو، جس طرح وہ شخص جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرے۔

          الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِی سَبِیْلِ اللہِ ثُمَّ لَا یُتْبِعُوْنَ مَا اَنْفَقُوا مَنًّا ولَا اَذًی (البقرة۲۶۲)

جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں پھر اس کے بعد نہ تو احسان جتاتے ہیں نہ ایذا دیتے ہیں، ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے، ان پر نہ تو کچھ خوف ہے نہ وہ اداس ہوں گے۔

          مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ ابْتِغَاءَ مَرْضَاةِ اللهِ(البقرہ ۲۶۵)

ان لوگوں کی مثال جو اپنا مال اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی طلب میں دل کی خوشی سے خرچ کرتے ہیں۔

تنگ دستی اور حاجت کے وقت میں بھی اللّہ کی راہ میں خرچ کریں:

          قرض حسن یا صدقات کے لیے ضروری نہیں ہے کہ ہم بڑی رقم ہی خرچ کریں یا اسی وقت لوگوں کی مدد کریں جب ہمارے پاس دنیاوی مسائل بالکل ہی نہ ہوں بلکہ تنگ دستی کے ایام میں بھی حسب استطاعت لوگوں کی مدد کرنے میں ہمیں کوشاں رہنا چاہیے، جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

          اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ (آل عمران۱۳۴)

جو محض خوشحالی میں ہی نہیں بلکہ تنگ دستی کے موقع پر بھی خرچ کرتے ہیں․․․․․ ان کے رب کی طرف سے اس کے بدلہ میں گناہوں کی معافی ہے اور ایسی جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔

          آتَی الْمَالَ عَلَی حُبِّہِ ذَوِیْ الْقُرْبٰی وَالْیَتَامٰی وَالْمَسَاکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلَ وَالسَّائِلِیْنَ (البقرہ ۱۷۷)

جو مال سے محبت کرنے کے باوجود رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والے کو دے۔

          مفسرین نے تحریر کیا ہے کہ مال کی محبت سے مراد مال کی ضرورت ہے۔ یعنی ہمیں مال کی ضرورت ہے، اس کے باوجود ہم دوسروں کی مدد کے لیے کوشاں ہیں ۔

          نبی اکرم ﷺ  سے سب سے بہتر صدقہ کے متعلق سوال کیا گیا۔ آپ ﷺ  نے فرمایا : اس حال میں بھی خرچ کرو کہ تم صحیح سالم ہو اور زندگی کی توقع بھی ہو، اپنے غریب ہوجانے کا ڈر اور اپنے مالدار ہونے کی تمنا بھی ہو۔ یعنی تم اپنی ضرورتوں کے ساتھ دوسروں کی ضرورتوں کوپورا کرنے کی فکریں کرو۔ (بخاری، مسلم)

قرض حسن یا انفاق فی سبیل اللّٰہ سے مال میں کمی واقع نہیں ہوتی:

          رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا: صدقہ کرنے سے مال میں کمی نہیں ہوتی ہے۔ (مسلم)

          کسی کی مدد کرنے سے بظاہر مال میں کمی تو واقع ہوتی ہے، لیکن درحقیقت اس سے مال میں کمی نہیں ہوتی ہے ،بلکہ آخرت میں بدلہ کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ اس کا بدلہ دنیا میں بھی عطا فرماتا ہے، جیسا کہ قرآن کی آیات اور نبی اکرم ا کے ارشادات میں تفصیل سے مذکور ہے۔

انفاق فی سبیل اللّٰہ کے فضائل:

          رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا: اگر میرے پاس اُحد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہو تو مجھے یہ بات پسند نہیں کہ میرے اوپر تین دن گزر جائیں اس حال میں کہ میرے پاس اس میں سے کچھ بھی باقی رہے، سوائے اس کے کہ کوئی چیز قرض کی ادائیگی کے لیے رکھ لی جائے۔ (بخاری، مسلم)

          رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا: روزانہ صبح کے وقت ۲ فرشتے آسمان سے اترتے ہیں۔ ایک دعا کرتا ہے : اے اللہ! خرچ کرنے والے کو بدل عطا فرما۔ دوسرا دعا کرتا ہے : اے اللہ! مال کو روک کر رکھنے والے کے مال کو برباد کر۔ (بخاری، مسلم)

          رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا: میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا دونوں جنت میں اس طرح ہوں گے جیسے دو انگلیاں آپس میں ملی ہوئی ہوتی ہیں۔ (بخاری)

          رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا: مسکین اور بیوہ عورت کی مدد کرنے والا اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔ ( بخاری،مسلم)

          رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا: جو شخص کسی مسلمان کو ضرورت کے وقت کپڑا پہنائے گا، اللہ تعالیٰ اس کو جنت کے سبز لباس پہنائے گا۔ جوشخص کسی مسلمان کو بھوک کی حالت میں کچھ کھلائے گا، اللہ تعالیٰ اس کو جنت کے پھل کھلائے گا۔ جو شخص کسی مسلمان کو پیاس کی حالت میں پانی پلائے گا، اللہ تعالیٰ اس کو جنت کی ایسی شراب پلائے گا، جس پر مہر لگی ہوئی ہوگی۔ ( ابوداوٴد، ترمذی)

          رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا: تمہیں اپنے کمزوروں کے طفیل سے رزق دیا جاتا ہے اور تمہاری مدد کی جاتی ہے۔ (بخاری)

          رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا: اگر تمہارا خادم تمہارے لیے کھانا بناکر لائے تو اسے اپنے ساتھ بٹھا کر کھلاوٴ یا اس کھانے میں سے کچھ دیدو، اس لیے کہ آگ کی تپش اور دھوئیں کی تکلیف تو اس نے برداشت کی ہے۔ (ابن ماجہ)

          حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ایک عورت اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ کچھ مانگنے کے لیے میرے پاس آئی۔ میرے پاس ایک کھجور کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا،جو میں نے اس عورت کو دے دی، اس عورت نے وہ کھجور دونوں بیٹیوں کو تقسیم کردی اور خود نہیں کھائی۔ نبی اکرم ا کے تشریف لانے پر میں نے اس واقعہ کا ذکرکیا، تو آپ ا نے ارشاد فرمایا: جس شخص کا بیٹیوں کی وجہ سے امتحان لیا جائے اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو یہ بیٹیاں اس کے لیے جہنم کی آگ سے آڑ بنیں گی ( بخاری،مسلم)۔

          # معلوم ہوا کہ تمام نبیوں کے سردار حضور اکرم اکی خواہش ہے کہ ہم اپنے مال ودولت کی ایک مقدار محتاج، غریب، مسکین، یتیم اوربیواعورتوں پر خرچ کریں۔

عام قرض کا بیان:

          اب تک اُس قرض کا ذکر کیا گیا جس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں قرض حسن سے تعبیر کیا ہے جس سے مراد اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اللہ کے بندوں کی مدد کرنا ہے۔ اب تھوڑی وضاحت عام قرض کے متعلق بھی تحریر کررہا ہوں:

          اگر کوئی شخص کسی خاص ضرورت کی وجہ سے قرض مانگتا ہے تو قرض دے کر اس کی مدد کرنا باعثِ اجروثواب ہے، جیساکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں علماء کرام نے تحریر فرمایا ہے کہ ضرورت کے وقت قرض مانگنا جائز ہے اور اگر کوئی شخص قرض کا طالب ہو تو اس کو قرض دینا مستحب ہے، کیونکہ شریعت اسلامیہ نے قرض دے کر کسی کی مدد کرنے میں دنیا وآخرت کے بہترین بدلہ کی بشارت دی ہے ، لیکن قرض دینے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے فائدہ کے لیے کوئی شرط نہ لگائے، مثلاً میں تمہیں قرض دیتا ہوں بشرطیکہ تم میرا فلاں کام کردو؛ البتہ قرض لیتے اور دیتے وقت ان احکام کی پابندی کریں جو سورہٴ بقرہ کی آیت ۲۸۲ میں اللہ تعالیٰ نے بیان کیے ہیں، یہ آیت قرآن کی سب سے لمبی آیت ہے، اور اس میں قرض کے احکامات ذکر کیے گئے ہیں۔ قرآن وحدیث میں متعدد جگہوں پر محتاج لوگوں کی ضرورت پوری کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔

          وَافْعَلُوا الْخَیْرَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُون (الحج ۷۷)

          بھلائی کے کام کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاوٴ۔

          تَعَاوَنُوا عَلَی الْبِرِّ (المائدہ ۲) اچھے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو۔

          # رسول اللہ ﷺ  نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے کسی مسلمان کی کوئی بھی دنیاوی پریشانی دور کی ، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پریشانیوں کو دور فرمائے گا۔ جس نے کسی پریشان حال آدمی کے لیے آسانی کا سامان فراہم کیا، اللہ تعالیٰ اس کے لیے دنیاو آخرت میں سہولت کا فیصلہ فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندہ کی مدد کرتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہے۔ (مسلم)

          # رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر کوئی مسلمان کسی مسلمان کو دو مرتبہ قرضہ دیتا ہے تو ایک بار صدقہ ہوتا ہے۔ (نسائی ، ابن ماجہ)

          # رسول اللہ ﷺ  نے ارشاد فرمایا: شبِ معراج میں میں نے جنت کے دروازہ پر صدقہ کا بدلہ ۱۰ گنا اور قرضہ دینے کا بدلہ ۱۸ گنا لکھا ہوا دیکھا۔ میں نے کہا اے جبرئیل! قرض صدقہ سے بڑھ کر کیوں ہے؟ جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا کہ سائل مانگتا ہے جبکہ اس کے پاس کچھ مال موجود بھی ہو، اور قرضدار ضرورت کے وقت ہی سوال کرتا ہے۔ ( ابن ماجہ)

          # حضرت ابودرداء فرماتے ہیں کہ میں کسی مسلمان کو ۲ دینار قرض دوں، یہ میرے نزدیک صدقہ کرنے سے زیادہ بہتر ہے․․․․ (کیونکہ قرض کی رقم واپس آنے کے بعد اسے دوبارہ صدقہ کیا جاسکتا ہے یا اسے بطور قرض کسی کو دیا جاسکتا ہے، نیز اس میں واقعی محتاج کی ضرورت پوری ہوتی ہے)۔ (السنن الکبری للبیہقی)

خلاصہ بحث:

          اللہ تعالیٰ نے مال ودولت کو انسان کی ایسی دنیاوی ضرورت بنائی ہے کہ عموماً اس کے بغیر انسان کی زندگی دوبھر رہتی ہے۔ مال ودولت کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو جائز کوششیں کرنے کا مکلف تو بنایا ہے مگرانسان کی جد وجہد اور دوڑ دھوپ کے باوجود اس کی عطااللہ تعالیٰ نے اپنے اختیار میں رکھی ہے، چاہے تو وہ کسی کے رزق میں کشادگی کردے اور چاہے تو کسی کے رزق میں تمام دنیاوی اسباب کے باوجود تنگی پیدا کردے۔

          مال ودولت کے حصول کے لیے انسان کو خالق ِکائنات نے یوں ہی آزاد نہیں چھوڑ دیا کہ جیسے چاہو کماوٴ ، کھاوٴ؛ بلکہ اس کے اصول وضوابط بنائے تاکہ اس دنیاوی زندگی کا نظام بھی صحیح چل سکے اور اس کے مطابق آخرت میں جزا وسزا کا فیصلہ ہوسکے۔ انہیں اصول وضوابط کو شریعت کہا جاتا ہے جس میں انسان کو یہ رہنمائی بھی دی جاتی ہے کہ مال کس طرح کمایا جائے اور کہاں کہاں خرچ کیا جائے۔

          اپنے اور بال وبچوں کے اخراجات کے بعد شرائط پائے جانے پر مال ودولت میں زکوٰة کی ادائیگی فرض کی گئی ہے۔ اسلام نے زکوٰة کے علاوہ بھی مختلف شکلوں سے محتاج لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی ترغیب دی ہے تاکہ جس معاشرہ میں ہم رہ رہے ہیں اس میں ایک دوسرے کے رنج وغم میں شریک ہو سکیں۔ انہیں شکلوں میں سے ایک شکل قرض حسن بھی ہے کہ ہم غریبوں اور محتاجوں کی مدد کریں، یتیموں اور بیواوٴں کی کفالت کریں، مقروضین کے قرضوں کی ادائیگی کریں اور آپس میں ایک دوسرے کو ضرورت کے وقت قرض دیں، تاکہ اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی ہمارے مال میں اضافہ کرے اور آخرت میں بھی اس کا اجر وثواب دے۔

          عزیز بھائیو! اس فانی دنیاوی زندگی کا اصل مطلوب ومقصود اخروی زندگی میں کامیابی حاصل کرنا ہے، جہاں ہمیں ہمیشہ ہمیشہ رہنا ہے، موت کو بھی وہاں موت آجائیگی ، اور جہاں کی کامیابی ہمیشہ کی کامیابی وکامرانی ہے۔ لہٰذا ہم :

          ۱)       اللہ تعالیٰ کے احکامات نبی اکرم اکے طریقہ پر بجا لائیں۔

          ۲)       صرف حلال رزق پر اکتفاء کریں، خواہ بظاہر کم ہی کیوں نہ ہو۔

          ۳)       حتی الامکان مشتبہ چیزوں سے بچیں۔

          ۴)       زکوٰة کے واجب ہونے کی صورت میں زکوٰة کی ادائیگی کریں۔

          ۵)       اپنے اور بال بچوں کے اخراجات کے ساتھ وقتاً فوقتاً قرض حسن اور مختلف صدقات کے ذریعہ محتاج لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔

          ۶)       اس بات کا ہمیشہ خیال رکھیں کہ کل قیامت کے دن ہمارے قدم ہمارے پروردگار کے سامنے سے ہٹ نہیں سکتے جب تک کہ ہم مال کے متعلق سوالات کا جواب نہ دے دیں کہ کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟

*       *       *

-------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 10 ، جلد: 95 ‏، ذي قعده 1432 ہجری مطابق اكتوبر 2011ء